سری نگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے گزشتہ روز (اتوار) کو گرفتار کیے جانے والے مبینہ شدت پسند طالب حسین شاہ کو انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا سرگرم کارکن بتایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ گرفتاری کے بعد پولیس حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ طالب حسین شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ سے منسلک ہیں۔
J&K | 2 terrorists of LeT apprehended by villagers of Tuksan, Reasi district, with weapons. 2AK rifles, 7 grenades and a pistol recovered. DGP announces a reward of Rs 2 lakhs for villagers: ADGP Jammu
Apprehended terrorists identified as Faizal Ahmed Dar and Talib Hussain. pic.twitter.com/frBrBrktv5
— ANI (@ANI) July 3, 2022
طالب حسین کو پولیس نے اتوار کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق طالب حسین کو جموں کے علاقے میں مقامی لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
بی جے پی کی جموں و کشمیر یونٹ کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے طالب حسین کی بی جے پی کے ساتھ وابستگی کی تردید کی ہے تاہم انھوں نے یہ ضرور تسلیم کیا ہے کہ طالب نے پارٹی کی آن لائن رکنیت لے رکھی تھی۔
Fact Check:-
There are some reports claiming that Talib Hussain resigned from BJP 2 months ago.
Date mentioned on his recent appointment letter is 09-05-2022.That means exactly 1 month and 24 days back he was appointed as IT & SM incharge of Jammu Province#BJPwithTerrorists pic.twitter.com/iwDI4cTdpR
— J&K Congress (@INCJammuKashmir) July 3, 2022
دوسری جانب بی جے پی کے جموں و کشمیر اقلیتی مورچہ کے صدر شیخ بشیر نے بی بی سی کو بتایا کہ دو ماہ قبل انھوں نے طالب حسین کو جموں خطے کے لیے آئی ٹی سیل اور سوشل میڈیا کا انچارج بنایا تھا لیکن کچھ عرصے بعد انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
Talib Hussain, the mastermind behind the plan to carry out attacks against the Amarnath turned out to be a BJP man. He was recently appointed incharge IT cell Minority Morcha. Why are the patriotic journalists silent? pic.twitter.com/PPIBFnt1Sx
— Salman Nizami (@SalmanNizami_) July 3, 2022
طالب حسین کے ساتھ وادی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے رہنے والے فضل ڈار کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ فضل ڈار بھی شدت پسند ہے۔
طالب حسین اور فضل ڈار کی گرفتاری
پولیس نے طالب حسین اور فضل ڈار کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ پیر کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے گرفتار شدت پسند طالب حسین کی نشاندہی پر مزید گولہ بارود بھی برآمد کیا ہے۔
پولیس کے مطابق، ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان دونوں مبینہ شدت پسندوں سے چھ بم، تین میگزین، دو پستول، ایک 30 بور پستول، ایک لانچر، تین گرینیڈ، اے کے 47 کے 75 راؤنڈ اور ریموٹ اینٹینا کے ساتھ ساتھ ایک دیسی ساختہ بم بھی برآمد کیا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے آفیسر دلباغ سنگھ نے طالب اور فضل کو پولیس کے حوالے کرنے والے شہریوں کے لیے دو لاکھ روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں گاؤں ریاسی کے باشندوں کو اُن کی بہادری کے لیے سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے دو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ ایک عام آدمی کی اتنی ہمت سے پتہ چلتا ہے کہ شدت پسندی کے خاتمے کے دن اب زیادہ دور نہیں۔ مرکز کے زیر انتظام حکومت نے گاؤں والوں کی بہادری کے عوض پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔‘
I salute the bravery of villagers of Tukson Dhok, Reasi, who apprehended two most-wanted terrorists. Such determination by common man shows end of terrorism is not far away. UT Govt to extend Rs. 5 Lakh cash reward to villagers for gallant act against terrorists and terrorism.
— Office of LG J&K (@OfficeOfLGJandK) July 3, 2022
راجوری کے ایس پی اسلم چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس راجوری میں ہونے والے تین بم دھماکوں میں طالب حسین کو تلاش کر رہی تھی۔
یاد رہے کہ چھ روز قبل جموں پولیس کے اے ڈی جی پی کے ٹوئٹر ہینڈل سے طالب کے بارے میں معلومات دینے پر انعام کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
طالب حسین کون ہے؟
طالب حسین کو تقریباً دو ماہ قبل جموں و کشمیر بی جے پی اقلیتی مورچہ نے جموں خطے کے لیے آئی ٹی اور سوشل میڈیا سیل کا انچارج بنایا تھا۔
طالب حسین راجوری ضلع کے بدھل علاقے کے رہنے والے ہیں۔ بی جے پی اور میڈیا میں شامل ہونے سے پہلے طالب بڑھئی کا کام کرتے تھے۔
اُن کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ طالب کے تین اور بھائی ہیں اور طالب اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ طالب کی شادی سنہ 2008 میں ہوئی تھی اور گرفتاری سے صرف ایک دن قبل ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ طالب سنہ 2017 میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بی جے پی میں کئی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔
کانگریس اور بی جے پی کے درمیان الزامات کی جنگ
طالب حسین کی گرفتاری پر جموں و کشمیر میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔
جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی نے بی جے پی میں لشکر کے مبینہ انتہا پسندوں کی موجودگی پر بی جے پی سے جواب طلب کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان رویندر شرما نے کہا کہ ’جو لشکر کمانڈر پکڑا گیا ہے وہ بی جے پی کے دفتر کا ایک سینیئر افسر ہے، جس کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔‘ رویندر شرما نے یہ بھی کہا کہ ’اب جب طالب پکڑا گیا ہے تو بی جے پی بے شرمی سے کہہ رہی ہے کہ وہ پارٹی کا مستقل رکن نہیں تھا۔‘
رویندر شرما نے کہا کہ ’آخر کس نے طالب حسین کو بی جے پی کے اقلیتی آئی ٹی سیل کا انچارج بنایا، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔‘
بی جے پی کا جواب
رویندر شرما نے کہا کہ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ طالب حسین کی ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ ’اگر طالب حسین بی جے پی کے رکن نہیں ہیں تو وہ امیت شاہ کی میٹنگ میں کیسے داخل ہوئے، جہاں بغیر اجازت پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔‘
شرما نے مطالبہ کیا ہے کہ طالب حسین سے جڑے تمام لوگوں کی جانچ ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق ایسے واقعات ملک کی سلامتی کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے بی بی سی کو بتایا کہ طالب جیسے لوگ پارٹی کی آن لائن ممبر شپ مہم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی سے جڑ جاتے ہیں اور پارٹی کی آڑ میں انتہا پسندوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’آن لائن ممبر شپ میں، ہم کسی شخص کا بیک گراؤنڈ چیک نہیں کر پاتے ہیں۔ طالب حسین کو پلانٹ کیا گیا تھا اور دہشت گرد بی جے پی لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے ہماری صفوں میں انتہا پسندوں کو بھیجتے ہیں۔ اسی نیت سے طالب بھی آیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالب بی جے پی کا رکن نہیں تھا۔ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پارٹی آن لائن ممبرشپ کی جانچ کرے گی۔‘
الطاف ٹھاکر کا کہنا ہے کہ طالب بی جے پی میں شامل ہونے سے قبل راجوری کے ایک مقامی نیوز پورٹل سے وابستہ تھے۔