اٹلی میں شامی بچوں سے جنسی زیادتیاں

لیزلے ڈیڈرن(دی انڈی پنڈنٹ)

اٹلی میں آنے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اکیلے جان بچا کر اٹلی کے ساحلوں پر پہنچنے والے بچوں کے  ساتھ زیادتی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

فلاحی تنظیموں نے کئی بار کہا ہے کہ اٹلی کے اسمگلر تارکین وطن کا بدترین استحصال کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹی بچیوں کو ادھار  دے کر پھر انہیں جسم فروشی کے دھندے میں ڈال دیتے ہیں۔ ادھر ان بچوں کا کہنا ہے کہ  سسلی میں انہیں عام مرد بھی  جنسی استحصال کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

16سالہ ’’ایمریس حالی  ‘‘  کچھ عرصے پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ لیبیا سے ’اریتیریا ‘ پہنچیں۔ ا ب یہ تمام لوگ رات مختلف عمارتوں کے دالانوں میں گزارتے ہیں۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی تارکین وطن کے سرکاری  کیمپ کو جلد ہی خیرآباد کہہ دیا ۔ انہیں بھی سب کی طرح خوف تھا کہ انہیں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کے لئے مجبور کیا جائے گا پھر یہ اٹلی چھوڑنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ایسے میں یہ لیبیا سے نکل کر اٹلی کے قیدی بن جائیں گے یا درخواست مسترد ہونے کی صورت میں واپس بھیج دیا جائے گا۔

ایمریس نے برطانوی میڈیا کو انٹرویو میں بتایا کہ اطالوی مردوں نے انہیں کھانا اور پانی فراہم کرنے کے بدلے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔

’’وہ ہمیں باغ یا پھر کسی ایسی جگہ پر ڈھونڈ لیتے ہیں، پھر وہ ہمیں بار میں بلاتے ہیں ، بیئر پلاتے ہیں اور کھانے کی دعوت پر گھر لے جاتے ہیں، پھر وہاں مزید بیئر پلاتے ہیں، پھر ہمارے جسم کو چھوتے ہیں، جب ہم گھر سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہاتھ میں پیسے پکڑا دیتے ہیں۔ ہم انکار کریں گے تو کوئی اور آ جائے گا۔‘‘

اٹلی میں رواں سال ایک لاکھ دو ہزار رجسٹرڈ پناہ گزین پہنچے جن میں سے 15فیصد وہ کم عمر نوجوان ہیں جن کے ساتھ کوئی بالغ شخص نہیں ہے۔

ایمریس کے طرح بیشتر افراد کو اٹلی کی فورس نے سمندر سے گرفتار کیا اور سسلی بھیج دیا۔ پھر انہیں سرکاری پناہ گزینوں کے مرکز میں رکھا گیا۔

تاہم بیشتر افراد یہ مرکز چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ پھر یا تو وہ لاچار بن کر اٹلی کی سڑکوں پر مافیا کے ہاتھ لگ جاتے ہیں یا سرحد پار کر کے یورپ کے دوسرے ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرحد پر کیلیاس کے جنگل میں ایسے کئی کیمپ قائم ہیں جہاں پناہ گزین موجود ہیں۔ ان کیمپوں میں بھی جنسی زیادتی کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

’’سیو دی چلڈرن آرگنائزیشن ‘‘ کے مطابق نابالغ تارکین وطن کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔  انسانی اسمگلر جنگ زدہ ممالک سے خوبصورت  لڑکیوں کو 50ہزار یورو کا قرض دے کر اٹلی لاتے ہیں، پھر انہیں قرض اتارنے کے لئے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔  اگر لڑکی کم خوبصورت ہو تو پھر ان سے جبری مشقت لی  جاتی ہے۔

لڑکوں کے ساتھ بھی کم ابتر سلوک نہیں کیا جاتا۔ انہیں بھی جنسی استحصال، چوری اور منشیات اسگلنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اٹلی کے کیمپوں میں بھی حالت اتنی اچھی نہیں۔ ہزاروں لوگ چھوٹی سی جگہ پر موجود ہیں جہاں ان کی قسمت کا فیصلہ ترکی اور جرمنی کے معاہدے کے مطابق کیا جاتا ہے۔

’’ایڈ ایجنسیوں ‘‘ کے مطابق اپنا ملک چھوڑ کر آنے والے تارکین وطن شدید خوف کے عالم میں رہتے ہیں، اہل خانہ بچوں کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ ایسے حالات میں کیمپوں کی بدترین صورتحال ہے۔ دوسری طرف تارکین وطن کا احتجاج اور مظاہرے بھی بڑھ رہے ہیں۔

سیو دی چلڈرن کے مطابق ’’اس عہد میں بھی ہزاروں افراد کا ایسی حالت میں ہونا کسی الیمے سے کم نہیں ۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کر آئے ہیں تاکہ محفوظ ہو سکیں لیکن یہاں آ کر وہ ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔‘‘

ڈیوڈ کیمرون نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان نابالغ بچوں کے لئے اقدامات کر کے مئی تک بحالی کا منصوبہ پیش کریں گے۔ تاہم اب تک وہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔

برطانوی وزارت داخلہ کی کمیٹی کے مطابق   انگلینڈ 2020تک 20ہزار شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں جگہ دینے کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔ اب تک سچ یہ ہے کہ ہزاروں افراد کی درخواستیں مسترد کر کے انہیں دوبارہ جنگ زدہ علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے۔

برطانوی حکومت نے پچھلی بار یہ کہہ کر مہاجرین کی اسکیم کو ختم کر دیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ اس اسکیم کے لالچ میں ایک خطرناک ترین سفر کریں اور برطانیہ پہنچیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: